صوبائی دارالحکومت لاہور میں سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں روز بروز اضٓفہ ہوتا جا رہا ہے۔ قابل فکر بات یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے اندر اتنی ہمت اور بڑی وارداتیں کرنے کا حوصلہ کہاں سے پیدا ہوا؟
چند روز قبل ایک خبر ٹی وی سکرین کی زینت بنی کہ لاہور میں موٹر سائیکل سوار 2 ڈکیت شہری سے ایک کروڑ 90 لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہو گئے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ملک میں جرائم پیشہ افراد کس حد تک باخبر اور بے باک ہو چکے ہیں۔
اسی طرح ایک ماہ قبل کی خبر تھی کہ جوہر ٹاؤن کے مشہور کیفے میں 2 لڑکے رش کے بیچ و بیچ آئے اور ریستوران کے باہر والے حصے میں بیٹھے درجنوں شہریوں کو ایک پستول کے زور پر یرغمال بنایا اور ان سے 10 موبائل فونز لے کر تسلی کیساتھ پارکنگ سے گاڑی نکالی اور سروس روڈ کے ذریعے فرار ہو گئے۔
قابل فکر بات یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے اندر اتنی ہمت اور بڑی وارداتیں کرنے کا حوصلہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اور تو اور ایک اور خبر یہ بھی تھی کہ لاہور کے پوش علاقے میں 2 ڈاکوئوں نے گلی میں جاتے لڑکے کو پستول کے زور پر روکا، اور جب اس کے پاس کچھ نہ نکلا تو اسکا’’پیزا‘‘ ہی لے گئے۔ یہ تمام واقعات جہاں ہمارے شہروں میں بڑھتے جرائم کا ثبوت دیتے ہیں وہیں یہ فکر بھی بڑھاتے ہیں کہ اب ان سے چھٹکارا کیسے پایا جائے گا ؟
ان جرائم میں برآمدگی اور گرفتاری کا تناسب کم ہے
جرم کی اگر باقاعدہ تعریف کی جائے تو یہ ایک ایسا فعل ہے جو قانونی طور پر ممنوع ہے، جس سے انسانی زندگیوں،ان سے وابستہ اخلاقیات اور ریاست کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتا ہو اور قانون میں اسکے لئے کوئی نہ کوئی سزا بھی مقرر ہو۔ جرائم مختلف اقسام کے ہوسکتے ہیں، مثلاً انسانوں کے خلاف جرم،جائیداد کے خلاف جرم،وائٹ کالر جرائم ، اسٹریٹ کرائم اور حتی ٰکہ اپنی ذات کے خلاف جرم (جس میں خود کشی کی کوشش کرنا بھی شامل ہے)۔ انسانوں کے خلاف جرائم میں قتل، اقدام قتل،ٹارگٹ کلنگ،دہشت گردی،بم دھماکے، جھگڑا، فساد، کسی انسان کو زخمی کرنا،ملازموں پر تشدد،جنسی زیادتی شامل ہیں۔ جائیداد کے خلاف جرائم میں بینک ڈکیتی،پٹرول پمپ ڈکیتی،مویشی چوری، گھروں کی چوری وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح وائٹ کالر جرائم وہ ہیں جن کا ارتکاب اعلیٰ اور عزت دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ملازمت کے دوران کرتے ہیں، اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچانے والے جرائم میں نشے کی عادت اور خودکشی شامل ہیں۔ جبکہ بہت سے ایسے جرائم بھی ہیں جو گلی محلوں میں عام انجام دئیے جاتے ہیں، جن میں عام لڑکے، لڑکیوں، بچوں، بزرگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، انھیں’’سٹریٹ کرائمز‘‘کہتے ہیں۔
ان میں جیب کتری، موبائل، پرس، کار، موٹر سائیکل، نقدی اور دوسری اشیاء اسلحے کے زور پر چھیننا شامل ہیں۔ چند سال قبل تک یہ جرائم زیادہ تر خالی بازاروں، سنسان سڑکوں اور پوش علاقوں میں دیکھنے میں آتے تھے۔ مگر اب یہ ہر جگہ اور حتیٰ کہ رش کے عالم میں بھی ہو رہے ہیں، جن کے دوران اب تک بہت سی قیمتی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں گلی محلوں کے جرائم میں اضافے کی خبریں ان دنوں عام ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب آپ کو کسی گلی، محلے، شہر سے کوئی ایسی اطلاع نہ ملتی ہو یا سوشل میڈیا پر ویڈیو سامنے نہ آئے کہ کسی کے ساتھ کوئی نہ کوئی واردات ہو گئی ہے۔
سٹریٹ کرائمز کا عروج ؟
ویسے تو پاکستان کا اب کوئی بھی ایسا علاقہ ، چھوٹا یا بڑا شہر اس سماجی برائی سے محروم نہیں، مگرعمومی تاثر یہ ہے کہ سٹریٹ کرائمز کے واقعات زیادہ تر بڑے شہروں میں ہو رہے ہیں جن میں کراچی اور پھر لاہور ، راولپنڈی اور پشاور قابل ذکر ہیں۔ دنیا کے بڑے شہروں میں جرائم کی صورت حال پر سروے کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’’نمبیو‘‘کی 2019 کے اواخر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لاہور میں جرائم کی مجموعی شرح 42 فیصد رہی جبکہ سال 2018 میں یہ 46.9فیصد تھی۔ مگر سٹریٹ کرائمز پھر بھی ہو رہے ہیں۔ فرق یہ آیا کہ اب ان وارداتوں کی ویڈیوز جلد منظر عام پر آ جاتی ہے ، جس سے جلد گرفتاری ممکن ہوسکتی ہے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں کراچی 71ویں نمبر اور لاہور 174ویں نمبر پر ہے۔
کراچی میں سٹریٹ کرائمز
شہر قائدمیں سٹریٹ کرائم کی وارداتیں نئی بات نہیں، یہ جرائم ہمیشہ اس شہر کیلئے خوف کی علامت رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کیساتھ ساتھ سٹریٹ کرائم بھی ایک ایسا جن ہے جو بے قابو ہو چکا ہے۔ پوش علاقے ہوں یا متوسط طبقے کے علاقے ہر جگہ پر شہری روزانہ کی بنیاد پر قیمتی اشیاء سے محروم ہو رہے ہیں۔ 2020 کے اختتام پر نومبر میں کراچی میں سٹریٹ کرائمزکی 5375 وارداتیں رپورٹ ہوئیں،مسلح ملزمان نے اسلحے کے زورپرشہریوں کو قیمتی موبائل فونز،سینکڑوں موٹرسائیکلوں اورگاڑیوں سے محروم کیا۔سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی کیاعدادو شمار کے مطابق شہر قائد میں ماہِ نومبر میں یومیہ تقریباََ179 اور ہر گھنٹے میں سٹریٹ کرائمز کی 7 وارداتیں رپورٹ ہوئیں، سب سے زیادہ موٹرسائیکل چوری کی3172 وارداتیں ہوئیں جبکہ دوسرے نمبرپرشہریوں کے ہاتھوں سے 1843 موبائل فون چھینے گئے۔شہر کے مختلف علاقوں سے 14 گاڑیاں اسلحہ کے زور پر چھینی اور 141 گاڑیاں چوری کرلی گئیں جبکہ صرف33 گاڑیاں ہی برآمد کی جاسکیں۔یوں برآمدگی اور گرفتاری کا تناسب کم نظر آ رہا ہے۔
مختلف علاقوں میں شہریوں سے 205 موٹرسائیکلیں اسلحہ کے زور پر چھین لی گئی اور 3ہزار 172 موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں جبکہ صرف 193 موٹر سائیکلیں ہی برآمد کی جا سکیں۔ اسی طرح ایک مہینے میں 1ہزار 843 موبائل فونز شہریوں سے چھینے گئے۔ صرف221 ہی موبائل فونز برآمد کیے جا سکے۔برآمدگی کا تناسب انتہائی کم ہے ۔ مختلف علاقوں میں بھتہ خوری کی3 اور قتل کے 31 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پھر دسمبر میں کراچی پولیس نے شہری جرائم خصوصا اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے ایک اور خصوصی رپورٹ تیار کی، جس میں بتایا گیا کہ کہ شہر کے 7 اضلاع میں ایک ہزار سے زائد بڑے منشیات فروش اور جرائم کے مافیاز سرگرم ہیں، جن میں سب سے زیادہ ضلع غربی اور وسطی میں ہیں۔
لاہور میں سٹریٹ کرائمز
لاہور پولیس کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 کے پہلے مہینے جنوری میں جرائم کی پے در پے وارداتوں نے شہریوں کو پریشانی اور خوف میں مبتلا کیے رکھا،صرف پہلے ماہ میں لاہور میں مختلف وجوہات کی بنا پر30 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جن میں 4 افراد ڈکیتی مزاحمت پر مارے گئے۔ ایک ماہ میں راہزنی اور ڈکیتی کی 295 سے زائد وارداتیں ہوئیں، جبکہ رپورٹ بتاتی ہے کہ جنوری کے آخری 10 ایام میں پستول کے زور پر شہر میں کم وبیش 5 کروڑ سے زائد کی ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں۔ 30 جنوری کا واقعہ ہے کہ ہال روڈ جو کہ اچھی خاصی رش والی جگہ ہے وہاں موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے اسلحہ کے زور پر شہری سے لاکھوں روپے کی رقم چھین لی اور فرار ہوگئے۔اس سے کچھ دن قبل لاہور کے علاقے کاہنہ میں فرنیچر شو روم میں ڈکیتی کی واردات کے دوران ڈاکو شو روم سے ڈیڑھ لاکھ روپے نقدی اور دیگر سامان لوٹ کر فرار ہوئے تھے جبکہ ماہ جنوری میں ہی کوٹ لکھپت میں شہری سے 8 لاکھ لوٹ لیے گئے تھے، جس پر مزاحمت کرنے والے گارڈ کو قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح نومبر میں موسم سرما کے آغاز پر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے 84 میں سے35 تھانوں کی حدود میں اسٹریٹ کرائمز میں 18سے 20 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ جن میں تھانہ شاہدرہ، رائے ونڈ، تھانہ شمالی چھاونی، تھانہ باغبانپورہ، ماڈل ٹاؤن ڈویژن، اسلام پورہ اور تھانہ فیکٹری ایریا وغیرہ میں صورت حال میں زیادہ بگاڑ دیکھنے میں آیا۔
سٹریٹ کرائم میں نو عمر بچے ملوث ؟
بد قسمتی سے پاکستانی معاشرے میں نو عمر بچے یا نوجوان سٹریٹ کرائمز میں سب سے زیادہ ملوث ہوتے ہیں، جو اپنے خوابوں کی تعبیر محنت ، تعلیم ، قلم و کتاب کی بجائے اسلحہ کے زور پر تلاش کرنے لگے ہیں۔ جس عمر میں ان کے ہاتھ میں قلم اور کتابیں ہونی چاہئیں وہ چاقو اور پستول تھامے ہوئے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ نوعمر بچے بالخصوص لڑکے جن کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں وہ معمولی چوری چکاری، جیب تراشی، اٹھائی گری میں ہی ملوث نہیں بلکہ بڑی ڈکیتیوں، گھروں، گوداموں اور دکانوں میں چوری کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ رہزنی، کار و موٹر سائیکل چوری کرنے جیسی سنگین وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔ پنجاب کے بڑے شہروں ، لاہور، فیصل آباد گوجرانوالہ میں نو عمر بچے جرائم کی دلدل میں زیادہ پھنسے دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور پولیس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران سٹریٹ کرائمز کے 30 فیصد کیسز میں ملوث افراد کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں جیلوں میں اس وقت 618 نو عمر بچے مختلف جرائم میں قید ہیں، جن میں سب سے زیادہ تعداد سنٹرل جیل فیصل آباد میں 148 ہے۔یہ صورتحال کراچی میں بھی سنگین ہے۔ کراچی پولیس کے مطابق گلی محلوں میں 11 سے 12 سالہ بچوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، یہ بچے موٹر سائیکل اور موبائل لوٹ کربہت ہی کم قیمت میں فروخت کر دیتے ہیں۔ اور اس عمر کے بچوں میں جرائم بڑھنے کی بڑی وجہ ان کی نشے کی عادت ہے۔ نشہ آورادویات بچوں کو باآسانی دستیاب ہیں، جس کے حصول کے لیے بچے چند ہزارروپے کے عوض چوری کی موٹر سائیکل فروخت کردیتے ہیں۔
سٹریٹ کرائمز میں اضافے کی وجوہات
جس معاشرے میں غربت و افلاس،بیروزگاری،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، لاقانونیت،بنیاد پرستی، ناخواندگی، پسماندگی، مہنگائی اور بے راہ روی کا دور دورہ ہو،اس معاشرے میں جرائم بڑی تیزی سے پنپتے ہیں۔ اور ایسے میں ان جرائم کو کنٹرول کرنا اور ان سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سٹریٹ کرائمز بھی اسی لئے بڑھ رہے ہیں۔ غربت زدہ علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کے لئے انتخاب کا فقدان ہے۔ جرائم کے سرگرم مافیا جو جگہ بیٹھے ہیں ، وہ ان نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں، اور جب ان نوجوانوں کے پاس بھی کوئی زریعہ معاش نہیں ہوتا تو پھر جرائم کی جانب ہی راغب ہوتے ہیں۔ اسی طرح سڑکوں ، گلیوں میں ہونے والے جرائم کی بڑھتی تعداد میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ غیر قانونی اسلحہ رکھنا بھی ہے، جس سے نمٹنے کے لئے حکام کو سخت رویہ اپنانا ہوگا، ناکوں کی تعداد بڑھا کر نوجوانوں کے خلاف تلاشی کو تیز کیا جانا چاہیے، کیونکہ غیر قانونی اسلحہ رکھنا نہ صرف سٹریٹ کرائم بلکہ ہر طرح کے جرائم کی علامت ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنا یا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ نوجوانوں میں اسلحہ رکھنا یا کسی گروپ میں شامل ہونا اور جارحانہ رویہ اپنانا ضروری محسوس ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر تحقیق کرنی چاہیے۔
سٹریٹ کرائمز کی زیادہ تر رپورٹیں تھانے میں نہیں لکھوائی جاتیں۔ زیادہ تر لوگ پولیس کی جانب سے صحیح اور بروقت اقدام نہ کئے جانے، رشوت ستانی اور ملزمان کو پکڑنے کی بجائے سائل کو بے جا تنگ کرنے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کے خوف سے پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والے جرائم سے آگاہ نہیں کرتے۔ اس طرح بڑی تعداد میں جرائم کے کیس درج نہیں ہو پاتے۔ جو کہ غلط ہے، ہر بندے کو کیس لازمی رپورٹ کروانا چاہیے، اور پولیس کو بھی عوام کے ساتھ اعتماد کی فضاء قائم کرنی چاہیے، تاکہ حکام کے پاس اس علاقے اور طریقہ واردات کا ریکارڈ موجود ہو ، جو مستقبل میں ایسے کیس روکنے کیلئے مفید ثابت ہو سکے۔ اسی طرح ہمارے ہاں ، مجرمان تک پہنچنے اور تفتیش کا نظام اتنا مثالی اور جدید نہیں ، جتنا آج کے زمانے میں ہو چکا ہے ، اس طرگ بھی توجہ دیتے ہوئے نظام کو جدید بنانا ہوگا۔ اس سنگین معاملے میں بہت زیادہ قصور وار ہمارے تمام حکمران بھی ہیں، جنھوں نے کئی دہائیوں سے قوم کے نوجوانوں کی تعمیر کیلئے صرف نعرے لگائے ہیں مگر ان کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لئے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی پیش نہیں کی، اور نہ ہی نوجوانوں کو مجرمانہ سرگرمی سے دور رکھنے کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات کئے۔
جبکہ یہ ناسور ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس طرح ملک کے معاشی و سیاسی مسائل اہم ہے ، وہیں اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا بھی اہم ہے۔مغربی دنیا میں دیکھیں انتخابی منشور میں ہمیشہ نوجوانوں کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے واضح پالیسیاں موجود ہوتی ہیں اور انھیں مجرمانہ سرگرمیوں سے دور رکھنا ، اور خوشحال سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرنے کے وعدے کیے جاتے ہیں ، جو پورے بھی ہوتے ہیں۔لہذا ہمارے حکمرانوں کو بھی نوجوانوں کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہم اسٹریٹ کرائم کے بحران کو کبھی حل نہیں کر پائیںگے۔