5فروری کوپاکستان بھر میں 1990ء سے لے کرہرسال انتہائی جوش وجذبے سے یوم یکجہتی کشمیر کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں حکومتی اور نجی سطح پر تقریبات اور اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جبکہ بیرون ممالک بالخصوص یورپ اور بالعموم امریکہ،کینیڈا اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں مقیم پاکستانی و کشمیری بھارتی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج کرکے دنیا اور عالمی طاقتوں کی توجہ کشمیر میں جاری ظلم و تشدد کی جانب مبذول کرواتے ہیں۔کشمیری عوام سے بھر پور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کے عہد دیرینہ کی تجدید کی جاتی ہے۔ عالمی برادری اور بھارت کویہ پیغام دیا جاتا ہے کہ کشمیری اور پاکستانی ایک ہیں،متحد ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔
یک جہتی کشمیر کا ایک مخصوص پس منظر اورپیش منظرہے۔یہ دن جہاں پاکستان اور کشمیر کے دیرینہ اور لازوال مذہبی،ثقافتی، معاشرتی، جغرافیائی اورسیاسی رشتے اور قومی جذبے کی جیتی جاگتی تصویر ہے وہاں دنیا بھر کی امن پسند اقوا م کے لئے واضح پیغام بھی ہے کہ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے کے لئے نا گزیر ہیں۔اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہر گز نہیں ہے کہ پاکستانی عوام نے روزاول سے خطہ کشمیر کے مقابلہ میں کشمیری عوام کو زیاہ اہم سمجھا ہے جبکہ بھارت نے اس کے برعکس جنت نظیر،سر زمین کشمیر کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوامی خواہشات اور کشمیریوں کے مفادات کے خلاف جبری تسلط قائم کیا۔
رواں سال یوم یک جہتی کشمیر ایسے حالات میں منایا جارہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ ڈیڑھ سال سے مسلسل بھارت لاک ڈاؤن کی صورتحال کا شکار ہیں۔8لاکھ سے زائد بھارتی مسلح افواج نے وادی کشمیر کا محاصرہ کر تے ہوئے جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ 5اگست 2019سے تاحال کشمیری عوام کو مزید اجیرن بنا ڈالاہے۔ حریت رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور خواتین اور بزرگوں کوبری طرح ہراساں کیا جارہا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 370اور35/Aکومنسوخ کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ریاست پر غاصبانہ قبضہ جما لیا گیا۔ بھارت کامیاب حکمت عملی کے تحت مسلم آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی گھناؤنی سازش پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں یوم یکجہتی کشمیر اس امر کا متقاضی ہے کہ پاکستان کو ہر محاذ پر اہل کشمیر کے حق مزاحمت کا تحفظ کرنا ہو گا۔زبانی جمع خرچ اور تقریروں سے نہیں بلکہ عملی طور پر حالات کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے بھارتی حکمت عملی کا توڑ کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کی ساری لچک اور امن کے فروغ کے لئے کوششوں کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی میں کسی بھی قسم کا تغیر نظر نہیں آ یا اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم میں ذرا بھر کمی آئی بلکہ پاکستان کی امن کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے انتہائی خطرناک کھیل کا آغاز کر دیا ہے۔
موٹروے پولیس کا روڈ سیفٹی کے پیغامات کوموثر طریقے سے عوام تک پہنچانے کے لیے ورچوئل ٹریننگ سنٹر قائم کرنے کافیصلہ
کشمیری عوام پر فوجی ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے بھارت نے ایک طرف کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے نام نہاد معاہدہ الحاق کی دستاویز جس کو جواز بنا کر ریاست میں اپنی افواج داخل کیں تھیں اس کا بھی خاتمہ کر دیا اور اس طرح سرعام غاصب ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشمیر کے حوالہ سے دوطرفہ معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی کھلے بندوں خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکا اور اسرائیل کی سرپرستی میں کشمیر ی عوام کو پاکستان کے خلاف ذہنی و فکری طور پرتیار کرنے کی گھناؤنی سازش پر عمل پیرا ہے۔
وفاقی وزیر آئی ٹی سید امین الحق سے جرمن سفیراور ڈائریکٹر انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں
بھارت شروع دن سے ہی لائن آف کنٹرول کو مستقل کرنے کے در پہ ہے۔وہ سیاہ کو سفید بنانا چاہتا ہے اور کشمیری عوام کی اکثریت ریاست جموں وکشمیر کی مکمل آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔بہر صورت پاکستانی قوم سے اپیل ہے کہ اپنے تاریخی موقف سے گہری وابستگی کا اظہار کرے،حکومتی ذمہ داران مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے بھارتی عزائم کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بین الاقوامی سطح پر کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں جہاں سفارتی اور مراعات یافتہ طبقے کی بجائے دانشور اور ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔حکومتی سطح پر بین الاقوا می کا نفر نسوں کا انعقاد کیا جائے۔جس میں ساری دنیا سے آزادی کی تحریکوں کے قائدین،علماء،وکلاء،ماہرین،دانشوراور صحافی حضرات کی شرکت کو یقینی بنایا جائے جس میں خطہ کشمیر سے فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ساتھ بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے لٹے پٹے دنیا بھر میں مقیم مہاجر کشمیر یوں کی بحالی کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں۔ کیونکہ حالیہ بھارتی اقدامات نہ صرف عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی برادری کیلئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور حکومت کے لئے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں چونکہ کشمیر میں جاری بھارتی افواج کی جارحیت صرف کشمیریوں کی نسل کشی کا سبب ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی، بقاء اور استحکام کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں۔