بھارت میں تعینات 24ممالک کے سفارتکاروں نے حکومتی دعوت پر سخت ترین حفاظتی حصار میں بدھ17فروری کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ اس دو روزہ دورہ کے دوران وفد کے اراکین نے صوبہ کشمیر اور صوبہ جموں میں ایک ایک مصروف دن گزارا۔
وفد میں چلی، برازیل، کیوبا، بولیویا، ایسٹونیا، فن لینڈ، فرانس، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، پرتگال، بیلجیم، اسپین، سویڈن، اٹلی، بنگلہ دیش، مالاوی، اریٹیریا، کوٹ ڈی آئر(سابقہ آئیوری کوسٹ واقع مغربی افریقہ) گھانا، سینیگال، ملائیشیا، تاجکستان، کرغزستان اور یورپی یونین کے بھارت میں تعینات سفیر اور سینئرسفارتکارشامل تھے۔ وفد بدھ کی صبح بذریعہ ہوائی جہاز سرینگرائیرپورٹ پر اترا جس کے فوری بعد اِسے ضلع بڈگام لے جایا گیا جہاں وفد کو ضلع ترقیاتی کونسل کے منصوبوں اورا س کی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ یہیں پر مقامی پنجایتوں کے سربراہوں نے بھی وفد سے ملاقات کی۔ بعدازاں وفد کو سرینگر لے جایاگیا
جہاں وفد کے ملاقاتیوں میں سیاسی و غیرسیاسی رہنما، ضلع ترقیاتی کونسلز، بلدیاتی اداروں کے عہدیداران، عام شہریوں، تاجررہنماؤں اور دیگر افراد شامل تھے۔ سرینگر میں وفد کے اراکین نے درگاہ حضرت بل کا بھی دورہ کیا۔ سرینگر میں بدھ کا مصروف ترین دن گزارنے کے بعد اگلی صبح جمعرات کو وفد سویرے ہی سرمائی دارالحکومت جموں پہنچ گیا جہاں لیفٹیننٹ گورنر موج سنہا، چیف جسٹس ہائی کورٹ اور دیگر نے وفد سے ملاقات کی۔ علاوہ ازیں فوج اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے وفد کو جموں وکشمیر میں امن وامان کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ فوج کی 15ویں کور کے سربراہ جنرل بی ایس راجو اور پولیس سربراہ وجئے کمار سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے وفد کو بتایا کہ کس طرح کشمیر میں شدت پسندی پنپ رہی ہے اور اس کے تدارک کے لیے کس نوعیت کے اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ اِن اعلیٰ حکام نے وفد کو کھل کر سرحد پار دراندازی کے حوالے سے بھی آگاہ کیا کہ پاکستان کشمیر میں جنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فروغ دے رہاہے۔ سرحد پار سے ڈرونز کے ذریعے حریت پسندوں کو ہتھیار فراہم کیے جارہے ہیں۔ سیکورٹی حکام کی جانب سے یہ طویل ترین بریفنگ تھی جس میں پاکستان کے خلاف کھل کر وفد کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور کوئی ایسا الزام باقی نہیں رہنے دیا گیا تھا جسے پاکستان کے سرتھوپنے سے محروم رکھا گیا ہو۔ اِس طویل بریفنگ کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کو بھارت کے خلاف اکسا رہاہے، وگرنہ کشمیری عوام تو مکمل طور پر بھارت کے حق میں اور اس کی پالیسیوں اور اقدامات کے سب سے بڑے حامی ہیں۔
ملتان سلطانز نے لاہور قلندرز کیخلاف ٹاس جیت لیا، بیٹنگ کریں گے یا فیلڈنگ؟
5اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیری عوام نے جس طرح بھارتی اقدامات اور سازشوں کو اپنی جہدِ مسلسل سے بے نقاب کیا، اس سے بوکھلا کر بھارت نے نئی سفارتی پالیسی اختیار کرتے ہوئے غیر ملکی سفیروں اور دیگر سفارتی عملے کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروانے کے منصوبے کا آغازکیا۔ اس سلسلے میں 23اراکین پر مشتمل پہلا وفد 29اکتوبر2019 کو 15سفارتکاروں پر مشتمل دوسرا وفد 9جنوری 2020ء کو، 25سفارتکاروں پر مشتمل تیسراوفد12فروری 2020ء کو اور اب ایک سال کے وقفے کے بعد چوتھا وفد 17فروری 2021ء کو مقبوضہ کشمیر میں پہنچاتاکہ یہاں کے حالات کا جائزہ لے کر عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے بھارت کے متعلق آراء اور نقطہ نظر میں تبدیلی لائی جاسکے جو پانچ اگست کے اقدام کے باعث تیزی سے گرد آلود ہوچکی ہے۔ اس اقدام کی بدولت ممکن ہے بھارت کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا اور وہ عالمی رائے عامہ تبدیل کرنے میں کافی حدتک کامیاب ہوجاتا لیکن پاکستان کی مضبوط خارجہ پالیسی اور پھر امریکہ، کینیڈ اور یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں موجود کشمیریوں، پاکستانیوں اور ان کے خیر خواہوں کے مسلسل احتجاج اور بھارت کے خلاف مظاہروں کے باعث بھارت کی نئی سفارتی پالیسی زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل غیر ملکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کے دورہ سے یہ باورکروانے کی کوشش میں لگا ہواہے کہ کشمیر میں حالات مکمل طور پر پرامن اور بھارت کے حق میں ہیں، کشمیری عوام بھارتی پالیسیوں اور اقدامات پر مطئمن ہے اور جو چند مٹھی بھر عناصر ہیں،و ہ پاکستان کے پروردہ ہیں اور اس کی ایماء پر سیکورٹی فورسز پر حملے کرکے امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کی کوششوں میں ملوث ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں ذرا برابر بھی کامیابی اور مقاصد کا حصول بھارت کے حصے میں نہیں آسکے۔ وہ جس طرح کے بھونڈے الزامات پاکستان اور کشمیری عوام کے خیر خواہوں پر لگانے میں مصروف ہے، ان سے ازخود بھارت کے دوغلے پن، اس کی چالاکی اور منافقت کا پردہ چاک ہوجاتاہے۔ یہ عجب تماشاہے کہ سفارتکاروں کو سخت حفاظتی انتظامات میں صرف سرکاری اہلکاروں اور حکام سے گفت وشنید کے لیے لے جایاجاتاہے۔ جو چند غیرسرکاری لوگ وفد سے ملاقاتی ہوتے ہیں، وہ بھی حکومت کے ہی نمک خوار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تمام حریت قیادت اس وقت جیل میں قید ہے یا گھروں پر نظر بند، اور جو ایک دو آزاد ہیں انھیں بھی وفد سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ کشمیر کے حقیقی حالات کی عکاسی کرسکیں۔ حریت قیادت نے وفد کی آمد اور پھر اِسے مخصوص و محدود مقامات و افراد تک رسائی کی اجازت کی زبردست مذمت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفد کی آمد پر بدھ کو مقبوضہ کشمیر میں زبردست ہڑتال رہی۔ بھارت نواز میڈیا نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ یقینا وفد کے اراکین نے اس صورت حال کو بہت قریب سے دیکھا ہوگا کہ اگر حالات پرامن ہیں توپھر بازار، دکانیں اور دیگر کاروباری مراکز بند کیوں ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک موجود کیوں نہیں۔ چناں چہ کہاجاسکتاہے کہ بھارت کی یہ نئی سفارتی پالیسی خود اس کے لیے نقصان دہ اور کشمیری عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہورہی ہے۔ سفارتی عملہ ایسا بھی اندھا نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے کے سہارے ناک کی سیدھ میں چلتا جائے۔ جب وفد کے اراکین رپورٹیں تیار کرکے اپنے اپنے ممالک کو ارسال کریں گئے تو وہ یقینا اس امر کا لازمی ذکر کریں گئے کہ انھیں زیادہ تر سرکاری اور سیکورٹی حکام ہی ملے اور انھیں عام افراد سے ملنے نہیں دیاگیا۔ پھر دوسری جانب چند ماہ پیشترآزادکشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب موجود اقوا م متحدہ کے امن مشن کی گاڑی پر بھارتی فوجیوں نے گولیاں برسائیں، اس سے بھی بھارت کی چالاکی اور ہوشیاری ظاہر ہوجاتی ہے۔ چند دن پیشتر ایک بھارتی فوجی کی ویڈیو بڑی تیزی کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ معروف بھارتی اداکار امیتابھ بچن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ساتھ ایک معرکہ کی روداد بیان کررہاہے اور آخر میں بتاتاہے کہ پاکستانی فوجیوں کی اندھادھند فائرنگ سے میری ٹانگیں زخمی ہوگئیں اور جب انھوں نے گن سیدھی کرکے میری چھاتی کو نشانہ بنایا، تو گولیاں میری جیب میں موجود سکوں سے ٹکرا کر پلٹ گئیں اور اس طرح میری جان بچ گئی، یہی نہیں بلکہ بعد میں یہ زخمی بھارتی فوجی اپنی گن سے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بھی بناتاہے۔ گویا جھوٹ اور دشنام طراز ی کرتے ہوئے حقائق تک کو مسخ کرنے کی کوشش میں بھارت اور اس کے فوجی خود ہی مزاح کا شکار ہورہے ہیں اور انھیں اپنے اقدامات، منصوبوں اور پالیسیوں کی تشکیل میں اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ کس قدرغلط اور گمراہ کن راستے پر چلے جارہے ہیں۔ غیرملکی سفارتکاروں کے دورہ کشمیر کا یہ راستہ بھی گمراہ کن ہے۔ اس سے یقینا عالمی برادری کو حقائق جاننے اور انھیں پورے سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنے کا سب سے آسان ذریعہ میسر آجائے گا اور یہ ذریعہ خود ان کے اپنے ہی نمائندے فراہم کریں گئے جنھیں پاکستان اور کشمیری عوام کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش میں بھارت اپنے ہی دامن پر لگے داغ طشت ازبام کر ڈالے گا۔