محمد شفیق ۔ نمائندہ enn
گذشتہ ایک ہفتہ سے پولیس سٹیشن شاہ لطیف کی حدود میں ہونے والے پولیس مقابلہ اور پے درپے پکڑے جانے والے کرمنلز کا معاملہ
معاملہ اصل میں ہیں کیا؟
نادر علی علی حمزہ اور یامین کا پولیس مقابلہ ہو
یا عبدالرزاق ولد علی بخش کے حبس بے جا میں رکھنے کا معاملہ طالب حسین نجیب اللہ محمد یاسر کو گرفتار کرکے موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں پکڑنےکا کریڈٹ ہو یا یا مشہور معروف جاوید عرف راول کو پکڑنے کی مہارت
ایس ایچ او محمد علی شاہ پہلے تو اپنے مخبروں کے ذریعے ڈیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہوگئ تو ویری گڈ نہ ہوئی تو ہالف فرائ 7ATA یا پستول رکھنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں
سمجھ نہیں ارہی پولیس کرمنلز پکڑ رہی ہیں یا شارٹ ٹرم کڈنیپینگ کررہی ہیں
جبکہ اصلی کرمنل کھلے عام گھوم رہے ہیں لینڈ مافیا بغیر کسی ڈر کے شریف لوگوں کو ڈرا دھمکا کر انکے گھروں پر قبضے کررہا ہے جبکہ ذرائع بتارہے ہیں کہ لینڈ مافیا کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پولیس آپکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریگی بس حساب کتاب ٹائم پر پہنچنا چاہیے
جبکہ لینڈ گریبر کے خلاف کمپلین پر سیٹلمنٹ کا مشورہ پولیس بڑی دریا دلی اور اپنایت سے دیتی ہیں اور تھانے کے باہر موجود ٹاوٹ متاثرہ شخص کو قبضہ چھڑانے سے لیکر پلاٹ کو بنانے تک کی ڈیل کی آفر کے ساتھ موجود رہتے ہیں
ماوا گٹکا تو لگتا ہے لائسنس ہے بیچنے والوں کے پاس کیونکہ پولیس کے پرائیویٹ بیٹر ہر گٹکا ماوا بیچنے والوں سے ہفتہ یا ماہانہ باقاعدگی سے وصول کرکے وقت پر پہنچاتے ہیں
جبکہ منشیات بیچنے والوں کے خلاف کارروائی تو لگتا ہے بالکل ضروری نہیں ہے
تفصیلات کے مطابق 4مارچ کو
پولیس مقابلے میں زخمی نادر علی کے بھائی کا کہنا ہے میرا بھائی قاسم ٹیکسٹائل میں نوکری کرتا تھا پولیس نے 3 مارچ کی شام کو دو دوستوں سمیت شاہ لطیف کے علاقے سے گرفتار کیا جبکہ 4مارچ کی دوپہر تک پولیس نا ہمیں معلومات فراہم کررہی تھی اور نا ہماری درخواست ریسیو کررہی تھی 4 مارچ کی شام کو پولیس مقابلہ میں زخمی کرکے ڈکیت ڈیکلئر کردیا اسکے بعد ہمارے بھائی نادر نے ہمیں بتایا کہ پولیس نے مجھ سے پانچ لاکھ روپے گھر سے منگوانے کے لیے افر کی جب میں نے منع کیا تو دوسرے دن ھاتھ پاوں باندھ کر ہمیں جنگل میں گولیاں ماری گئی اسکے بعد نقص امن کو بنیاد بنا کر تھانہ الفلاح کے حوالے کر دیا جہاں مرہم پٹی بھی نہیں کی جارہی تھی تیسرے دن پٹی کی گئی اور گزشتہ کل معزز عدالت نے انہیں جیل کسٹڈی کردیا جبکہ نادر کی فیملی نے بھی 10 مارچ کو ایس ایچ او اور پولیس پارٹی کے خلاف جعلی مقابلے کی پٹیشن دائر کر رکھی ہے
جبکہ عبدالرزاق ولد علی بخش کیس میں مجسٹریٹ نے چھاپہ مار کر عبدالرزاق کو بازیاب کروایا ورثاء کا کہنا تھا ہم سے پانچ لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی گئی اور زمان ٹاؤن میں درج ایک مقدمہ سے دستبرداری کی ڈیمانڈ بھی کی گئی ورنہ انکاونٹر میں مارنے کی دھمکی دی گئی جسمیں معزز عدالت نے انکوائری کرکے ایس ایچ او پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے جو پولیس کی جانب سے ٹال مٹول کی وجہ سے اب تک درج نہیں ہوسکی ہیں جسکے بعد مدعیہ نے توہین عدالت کی کارروائی کے درخواست کی ہے جبکہ عدالت نے ایف آئی آر درج نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے
*اسی طرح طالب حسین نجیب اور یاسر کیس میں بھی3 مارچ کو سکھن کے ایریا سے گرفتار کر کے انکاونٹر کی دھمکی سے ڈراکر دس لاکھ کی ڈیل کی کوشش کی گئی جسے بعد میں پانچ لاکھ تک لایا گیا لیکن ڈیل پوری نہ ہونے پر اور کال ریکارڈ پبلک کرنے کی دھمکی کے بعد ہی پولیس نے انکی گرفتاری دو موٹر سائیکل موبائلز اور 4 30 بور پستول کے الزام کے تحت اور جاوید عرف راول کے ساتھ 10مارچ کو ظاہر کی ہے یاد رہے کہ جاوید عرف راول پر اس سے پہلے کئی ایف آئی آرز درج ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ڈیل کے تحت راول نے گرفتاری کچھ دن پہلے ہی دے دی تھی جبکہ ڈیل میں کرائی جائے والی یقین دہانیوں میں ذرائع کے مطابق انکاونٹر اور ہالف فرائ نا کرنے کی یقین دہانی شامل ہیں