بھلا دنیا میں کون سا ایسا ملک اور معاشرہ ہو گا یا کون سے ایسے نوجوان یا بچے ہوں گے، جنہوں نے 60 سیکنڈز میں پچاس ہزارپودے لگانے کاعالمی ریکارڈ بنا ڈالا؟ اگرآ پ نہیں جانتےتو عرض ہے کہ یہ سہرا پاکستان کےسرپرسجاہے۔یہ کارنامہ انجام دےکرگوجرانوالہ کےنوجوانوں نےتاریخ رقم کردی ہےجس میں ساڑھے بارہ ہزارطلبہ وطالبات نے حصہ لیا۔یہ وزیراعظم عمران خان کا ہی دوراندیش ویژ ن ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو لیڈ کر رہے ہیں۔
ایک اچھی خبر ہے کہ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی لاہور میں ایشیا ء کے دو سب سے بڑے میاواکی جنگلات لگا رہی ہے۔ ان میں سے ایک کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کر دیا ہے۔سگیاں پارک کی سائٹ پر 100 کینال پر محیط ایشیاء کا سب سے بڑا میاواکی جنگل لگا دیا گیا ہے، اس جنگل میں ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد پودے لگائے جائیں گے، جو تین سے پانچ سال کے دوران تناور درخت بن جائیں گے۔ ان جنگلات کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پودے جلدنشو نما پا کر بڑے ہو جائیں گے اور شہر سر سبز ہو گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کےمشیربرائےماحولیاتی تبدیلی آصف محمودکاخیال ہے کہ جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا میاواکی جنگل لگانے کا ریکارڈ بھی لاہور کے پاس ہے۔اس جنگل سے ماحولیاتی تبدیلی کی عالمی ذمہ داریوں سے بھی پاکستان کی ہم آہنگی پیدا ہو گی ۔ڈی جی پی ایچ اے جواد احمد قریشی پر امید ہیں کہ سگیاں میاواکی جنگل پانچ سال میں گھنا ہوجائے گا جہاں قدرتی ماحول سب کے دل کو لبھائے گا۔پی ایچ اے نے جاپانی تکنیک میاواکی کے تحت جنگل لگانا شروع کر دئیے ہیں، اب تک شہر میں 51 مصنوعی جنگل لگائے جا چکے ہیں۔
میاواکی جنگلات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ ان میں پھلدار، پھول دار،سایہ دار، جھاڑی داردرخت گویا ہر قسم کے پودے شامل ہوتے ہیں۔ زمین میں کوئی کیمیکل یا کیمیائی کھاد نہیں ڈالی جاتی بلکہ صرف علاقائی کھاد ڈالی جاتی ہے اور پھر مقامی پودوں کو چار تہوں میں جنگل کی ترتیب سے لگا دیا جاتا ہے۔ ان درختوں کو صرف تین سال پانی دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ خود بخود بڑھنے لگتے ہیں اور ساٹھ ستر فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتے ہیں۔ صرف تین سال میں ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے جہاں پرندے، ہر قسم کے حشرات، تتلیاں، چڑیاں، شہد کی مکھیاں، گرگٹ وغیرہ آنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے جنگل کا ایک پورا ماڈل تیار ہو جاتا ہے۔ میاواکی طریقے سے لگائے گئے یہ درخت دس گنا زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور تیس گنا زیادہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ تیس گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور ہوا میں موجود الرجی پیدا کرنے والے اجزا کو تیس گنا زیادہ جذب کرتے ہیں اور یوں اس علاقے کی ہوا کو صاف کر کے ایک صحت مند فضا پیدا کر دیتے ہیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں