ملک عزیز اس وقت شدید سیاسی کشمکش کا شکار ہے۔ کرونا کے باعث حالات جس قدر اتحاد و یگانگت کے متقاضی تھے اتنا ہی ہمارے ہاں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں جانب سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک طرف کرونا کا چیلنج تو دوسری طرف معاشی حالات سخت تر ہیں۔ اندرونی و بیرونی سکیورٹی خدشات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ایک طرف بھارت خطے میں عدم استحکام کی کوششوں میں مصروف ہے اور ایل او سی پر سیز فائر کی آئے روز خلاف ورزی میں ملوث پایا جاتا ہے تو دوسری طرف مغربی سرحد پر بھی افغانستان سے دہشتگردانہ کارروائیوں سے باز نہیں آتا۔
یہ پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت جیسے ازلی دشمن کو ناکوں چنے چبوا کر ملکی استحکام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، ان حالات میں بطور پاکستانی ہر شہری کا فریضہ ہے کہ حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض کا ادراک کرے۔
مگر افسوس کیساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں اتحاد کے بجائے قوم تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے۔ کوئی خود کوکسی جماعت سے منسوب کرتا ہے تو کوئی کسی دوسری جماعت کا حامی ہونے کا دعویدار ہے۔ اس معاملے میں ہماری سیاسی جماعتیں بھی غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں۔ ہر کوئی اپنا ’’ شملہ‘‘ اونچا رکھنے کی کوشش اور حزب مخالف کو لتاڑنے کی سعی میں مصروف ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ہر کوئی اپنے بیانیے پر ڈٹارہنے کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔ ملکی بگڑتی سیاسی و معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سابق خادم اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے قومی ڈائیلاگ کا صائب مشورہ دیا ہے۔ حالات بھی اسی کے متقاضی ہیں کہ سب مل کر ملکی مسائل کے حل اور عوامی ریلیف کے لیے مل بیٹھیں۔ عمومی طور پر ایسے اقدامات میں حکومت کی جانب سے پہل کی جاتی ہے مگر اس وقت جو حکمران ہمارے ہاں برسراقتدار ہیں وہ اس بات کو سمجھنے کے شاید قائل ہی نہیں ۔
انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ حکومت کرنا اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ حکومت عمومی طور پر سیاسی درجہ حرارت کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی ہیں مگر اس وقت ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
وفاقی و صوبائی وزرا ہوں یا خود وزیراعظم ہر کوئی ہر جگہ ایک ہی گردان گرادنتے سنائی دیتے ہیں ’’ نہیں چھوڑیں گے‘ ’’ کوئی نہیں بچے گا‘‘ جیلوں میں ڈال دیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ وزیراعظم بھی اُن وزرا کی کارکردگی کو سراہتے ہیں جو اپوزیشن کو زیادہ ٹف ٹائم دیتے ہیں۔ شاید حکومت نے کارکردگی کا معیار اپوزیشن کو بُرا بھلا کہنا ہی سیٹ کرلیا ہے۔ حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ ملکی معاملات ایسے نہیں چلتے، اپوزیشن کے بغیر جمہوریت ہی نامکمل ہے ۔ جب حکومت کی جانب سے سخت رویہ برتا جائے گا تو اپوزیشن تو حکومت کو ڈی سٹیبلائز کرنے کی سعی کو تیز کرے گی ہی۔
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنے رویے میں نرمی لائے۔ سیاسی اختلاف کو بھلا کر فی الوقت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے۔
کرونا کی صورتحال کے پیش نظر باہمی اتفاق رائے سے قومی پالیسی بنائی جائے۔ اپوزیشن لیڈر کے صائب مشورے پر عمل کرتے ہوئے قومی ڈائیلاگ کے لیے راہ ہموار کیجائے۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب حکومت کچھ نرمی کا مظاہرہ کرے گی۔ رہی بات اپوزیشن کے خلاف کرپشن کیسز کا تو یہ کام عدالتوں کا ہے کہ انصاف پر مبنی فیصلے کریں۔
اس کے بعد اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے کرونا کے پیش نظر اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے۔ جلسوں کو فی الوقت منسوخ کر کے قوم کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔