دو سالہ ڈگری پروگرام کا خاتمہ

دو سالہ ڈگری پروگرام کا خاتمہ

یونس یوسف ۔ نمائندہ

گلوبل نالج اکانومی اور نالج ورک فورس جیسے نیو لبرل ایجنڈہ پر کام کرنے والی ورلڈ بینک فنڈڈ ایجوکیشنل بیوروکریسی جسے ہائر ایجوکیشن کمیشن کہا جاتا ہے نے پاکستان میں ایک اور تعلیم دشمن پالیسی کا نفاذ کیا ہے۔ HEC کی نئی پالیسی کے مطابق 31 دسمبر 2018ء کے بعد دوسالہ بیچلر ڈگری (بی اے، بی کام، بی ایس سی) کرنے والے طلبہ کی ڈگریاں غیر قانونی اور غیر متعلقہ قرار دی گئی ہیں جبکہ 2020ء کے بعد دو سالہ ماسٹر پروگرام (ایم اے، ایم کام، ایم ایس سی) کا بھی خاتمہ کردیا گیا ہے۔ مذکورہ نئی پالیسی HEC کی کوتاہ قامتی اور تعلیم دشمنی کی بدترین مثال ہے۔ اس پالیسی کا نفاذ کرتے وقت HEC نے یہ نہیں سوچا کہ طلبہ کی کتنی بڑی تعداد اس پالیسی کے نتیجہ میں مشکلات کا شکار ہوگی۔ اس نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد لوئر مڈل کلاس کے طلبہ پر تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہی ہو جائیں گی جس کے نتیجہ میں ان کا اکیڈمک کیریئر ختم ہو جائے گا۔ ایک طرف پاکستان کے دور دراز علاقے نہ صرف کالجز اور یونیورسٹیوں سے محروم ہیں بلکہ چند بڑے شہروں میں جو کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہیں وہاں بھی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دو سالہ ڈگری پروگرام کے خاتمہ سے وہ طلبہ جو اپنی نوکریوں کے ساتھ ساتھ بحیثیت پرائیوٹ امیدوار اپنی تعلیمی قابلیت بڑھایا کرتے تھے ان سے بھی اب یہ موقع چھین لیا گیا ہے۔ اس پالیسی سے ان خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوگی جو پاکستان کے مخصوص ثقافتی ماحول میں گھر بیٹھ کر پرائیوٹ امیدوار کے طور پر امتحانات کی تیاریاں کرتی تھی اور پھر سال کے آخر میں اماں، ابا، بھائی یا شوہر کے ساتھ دور داز کے امتحانی مراکز میں جا کر امتحان دے دیا کرتی تھی۔
پاکستان کی مخصوص معاشی، سماجی اور تعلیمی صورتحال میں HEC کا یہ فیصلہ مکمل طور پر HEC کی پست دانشمندی اور غیر عقلی و غیر منطقی فیصلہ سازی کا اظہار ہے۔ اس فیصلہ نے HEC کے بودے پن اور بھونڈے انداز کو کھل کر ظاہر کردیا ہے۔ HEC کی جانب سے کالجز اور دیگر ڈگری فراہم کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چار سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری (A.D) کو نافذ کریں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مجوزہ ایسوسی ایٹ ڈگری کا نصاب کیا ہے؟ اس ڈگری کے تحت دی جانے والی تعلیم کیا ہوگی؟ اس ڈگری کے تحت بی اے، بی کام اور بی ایس سی کے مختلف کورسز کی جگہ کیا پڑھایا جائے گا؟ کالج کی سطح پر آرٹس، کامرس اور سائنس کے تخصیصی (Specialized) مضامین کو ایسوسی ایٹ ڈگری میں کس طرح سمویا جائے گا؟ کیا پاکستان کے کالجز اور دیگر ڈگری فراہم کرنے والے اداروں میں اتنی سکت ہے کہ وہ ایسوسی ایٹ ڈگری کے تحت تدریس کرسکیں؟کیا کالجز کے اساتذہ کی اس حوالہ سے کوئی تربیت یا رہنمائی کی گئی؟ ایسوسی ایٹ ڈگری کو فاصلاتی نظام تعلیم میں کس طرح نافذ کیا جائے گا؟اور پھر بنیادی سوال یہ ہے کہ ان پالیسیوں کی تشکیل کس سے پوچھ کر کی گئی؟ HEC میں فیصلہ سازی کا مکینزم کیا ہے؟ پالیسی بناتے وقت اسٹیک ہولڈرز (طلبہ، اساتذہ، والدین)سے کتنی مشاورت کی گئی؟
کیا HECکے لیے صرف ورلڈ بینک اور گلوبل ایجوکیشن انڈسٹری کے احکامات ہی پالیسی کا درجہ رکھتے ہیں؟ یا پھر سرکار دربار کی ہاں میں ہاں ملانے والے خوشامدی وائس چانسلرز / ریکٹرز کے ساتھ ہی کنسلٹیشن کا عمل کافی ہے؟ کیا اپنی اپنی یونیورسٹیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز حاصل کرنے والے وائس چانسلر صاحبان ان معاملات پر HECکی مخالفت کرسکتے ہیں؟
ایجوکیشن انڈسٹری سے وابستہ گلوبل انویسٹرز کے مفادات یقیناً پاکستان میں تعلیم کی تباہی کا ہی باعث ہونگے۔ HECجن فنڈڈ پراجیکٹس کو ”تعلیمی معیار میں بہتری“ قرار دے رہی ہے وہ پاکستان کے لاکھوں طلبہ کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہونگی۔
یہی وقت ہے کہ تمام طلبہ کو اپنے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہئے اور معاشرہ کے تمام باشعور افراد کو طلبہ کے حق تعلیم کے لیے ان کا ساتھ دینا چاہئے۔

یہ خبر یونس یوسف نے ارسال کی

نیوز ڈیسک

ای این این ٹی وی کا نیوز ڈیسک نمائندگان کی خبروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات کو اپنی قارئین کے لیے اپنی ویب سائٹ پر شائع کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Next Post

سیپ اساتذہ کا انٹرویو 5 دسمبر کو ہوگا

Fri Dec 4 , 2020
یونس یوسف ۔ نمائندہ enn سیپ اساتذہ کا انٹرویو 5 دسمبر کو ہوگا۔ گورنر گلگت بلتستان کی یقینی دہانی۔انشاءاللہ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں ہونے دینگے

کیلنڈر

September 2023
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930